منصور آفاق کانام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔ وہ اردو ادب کے ہر میدان میں اُترکر اپنے آپ کو تسلیم کراچکے ہیں۔ان کا اہم ترین کام ”دیوان منصور ” ہے۔ پچپن سو اشعارپر مشتمل جدیدشاعری کے اِس باردیف مجموعہ کی مثال پچھلے پچاس برس میں موجود نہیں۔ ظفراقبال نے اس کتاب پر لکھا کہ شاعری کا ایسا ذائقہ پہلے اردو میں موجود نہیں۔احمد ندیم قاسمی نے لکھا ” منصور آفاق کے باطن میں تخلیق ِ فن کے آتش فساں کا سراغ مجھے برسوں پہلے مل گیا تھا ۔احمد فراز لکھتے ہیں ۔”منصور آفاق اپنی نسل ے نمائندہ شاعر ہیں ”قمر رضا شہزادنے لکھا” لمحہ ء موجود میں ظفراقبال کے بعد سب سے بڑا شاعر منصور آفاق ہے”۔اس کے علاوہ منصور آفاق نے سلطان باہو کی فارسی شاعری کا منظوم ترجمہ ”الہامات باہو ” کے نام سے کیا ہے جسے بہت پذیرائی ملی۔وہ سلطان باہو کی کئی نثری کتابوں کے مترجم بھی ہیں۔ان کے شعری مجموعے ” آفاق نما ”اور ”نیند کی نوٹ بک ””میں عشق میں ہوں” بھی بہت پسند گئے ۔منصور آفاق روزنامہ جنگ کے کالم نگار بھی ہیں۔ان کی کئی کتابیں بھی تنقید کے میدان میں اہمیت کی حامِل ہیں۔نوے کی دھائی میں انہوں نے پی ٹی وی اور این ٹی ایم کیلئے کئی ڈرامہ سریل بھی لکھے۔ جن میں زمین ، دنیا ، پتھر اور نمک کو بہت شہرت ملی۔