Tuesday 13 June 2023

آقا قافا

 



 

 ایک آفاقی ناول 

مصنف : منصور آفاق 

تجزیہ : فرحت عباس شاہ 


 اگرچہ میں منصور آفاق کے زیر نظر ناول کو اشفاق احمد کے کچھ افسانوں یا بابا یحیٰ خان کی طویل تحریروں میں لے آنا چاہتا تھا لیکن نہ تو یہ ناول طویل افسانہ ہے نہ پیروں فقیروں اور جنات کے موضوع پر لکھی گٸی طویل روداد ۔ دوسری زبانوں میں بھی اس نوع کا کوٸی ناول میری نظروں سے نہیں گزرا کہ میں منصور آفاق کے زیرِ نظر ناول کو اس کیٹیگری میں لے آوں ۔ لے دے کے میرے لیے اسے بہت پہلے بناٸی گٸی فلم ”  بُدھا  “ اور پیرا ساٸیکالوجی پر بناٸی گٸی ہالی ووڈ کی ماڈرن فلموں کے نزدیک رکھنے کے علاوہ کوٸی اور آپشن نہیں بچتی ۔ اگرچہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر تخلیق کو پہلے سے موجود کسی فرمے میں فٹ کیا جاٸے لیکن کٸی دفعہ کسی نٸے ڈھنگ سے لکھے گٸے ادب پارے کو پوری طرح سمجھنے کے لیے روایت یا کوٸی ریفرنس مل جاٸے تو اس کی پرتیں کھولنے میں نقاد کو آسانی میسر آجاتی ہے ۔ جس طرح دنیا کے بڑے ناولوں پر بناٸی گٸی فلمیں ناول اور فلم کے باہمی اور قریبی رشتے کا ثبوت فراہم کرتی ہیں اسی طرح ایک فلم راٸیٹر اور ڈرامہ نگار کا لکھا ہوا ناول بھی اپنی فطری نوعیت کا داٸرہ بناتا قاری کو نٸی طرح کی لذت مطالعہ سے روشناس کراتا ہے ۔ 

منصور آفاق بنیادی طور پر صوفیانہ اور شاعرانہ نثر کے ایک قطعی منفرد اسلوب کا حامل تخلیکار  ہے جس کی نثر کو نثر نگاروں کے جم غفیر میں بھی بڑی سہولت سے پہچان کر الگ کیا جاسکتا ہے ۔ صاحب اسلوب شاعر یا نثرنگار ہونا ادب میں ایک غیر معمولی صفت کا حامل ہونا ہے کہ آپ شعوری کوشش سے شعر بھی بناسکتے ہیں اور کہانی بھی لکھ سکتے ہیں لیکن اسلوب صرف اسی وقت تشکیل پاٸے گا جب وہ تخلیق کار کی ذات کا حصہ ہوگا ۔ بصورت دیگر کوشش سے اختیار کیا جانے والا اسلوب آدھے صفحے کے بعد ہی اپنی شکل برقرار نہ رکھتے ہوٸے آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بن کر ایک تو تخلیق کار کو بھی ایکسپوز کردے گا اور دوسرا قاری کے لیے مطالعہ جاری رکھنا بھی ناممکن بنا دے گا ۔  منصور آفاق صاحب اسلوب تخلیقکار ہی نہیں بلکہ شخصی سطح پر بھی صاحب اسلوب ہے جس کے بولنے چالنے ، اٹھنے بیٹھنے اور اور لکھنے لکھانے میں ایک نمایاں اور یکساں رنگ ڈھنگ خود بولتا صاف نظر آتا ہے ۔ تصوف ، سری علوم اور فلسفہ اس کے نہ صرف پسندیدہ موضوعات ہیں بلکہ اس کی تحریروں اور تقریروں کے ساتھ ساتھ اس کی تدبیروں کے گرد بھی اتنا مضبوط حصار قاٸم کیے ہوٸے ہیں کہ اسے ان داٸروں سے باہر نکال کے نہ دیکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی سمجھا جاسکتا ہے ۔ 

منصور آفاق کے زیر نظر ناول آقا قافا کو سمجھنے کے لیے اس کے طرز حیات کو سمجھنا بہت ضروری ہے ورنہ کسی بھی دور بیٹھنے نقاد کے لیے یہ ناول ایک پیچیدہ گنجل بن کے رہ جاٸے گا ۔ 

شعور کو باطنی شعور  اور لاشعور کو باطنی لاشعور لکھنا، معروضیت کو خارجی معروضیت بتانا یا پانی سے آکسیجن بننے کے عمل کو طبیعاتی عمل قرار دینا دراصل اس کے مروجہ تدریسی ضابطوں کی نسبت فوک اور فطری زریعہ ہاٸے علوم پر زیادہ اعتماد اور ان سے زیادہ وابستگی کی نشانی ہے ۔ ناول کا دوسرا حصہ جسے پہلا حصہ بھی کہا جاسکتا ہے کی کہانی ناول کے مرکزی کردار آقا قافا کے اس باطنی سفر کی کہانی ہے جسے متوازی زندگی یا پیرالل سٹیٹ آف ماٸینڈ بھی کہا جاسکتا ہے ۔ 

میرے اپنے ذاتی خیال کے مطابق ہر انسان اپنی طبعی عمر میں ایک سے زیادہ زندگیاں بسر کرتا ہے ۔ وہ دفتر میں ایک اور انسان ہوسکتا ہے جو گھر میں رہنے والے انسان سے بالکل مختلف ہو لیکن مصنف نے یہاں جس باطنی سفر کی کہانی لکھی ہے وہ  کسی بالکل ہی مختلف دنیا اور ماحول کی کہانی ہے جسے ناول نگار نے اپنی باطنی کہانی قرار دیا ہے ۔ مرکزی کردار آقا قافا کی اس کہانی کو سمجھنے کے لیے ہمیں ڈاکٹر سیگمنڈ فراٸیڈ کے نظریہ ء ذہن کی مدد لینا ہوگی ۔ فراٸیڈ کے مطابق انسانی ذہن کے تین بنیادی حصے ہیں 1. شعور ، 2 . تحت الشعور   اور 3. لاشعور   وہ کہتا ہے کہ انسانی ذہن کا سب سے گہرا ، وسیع و عریض اور پراسرار ترین حصہ لاشعور ہے جس میں  انسان کی وہ  نا آسودہ خواہشات ، خوف ، خدشات اور ناپسندیدہ خیالات جن کا سامنا کرنا انسان کے لیے مشکل ، تکلیف دہ یا کسی طرح بھی ناقابل قبول ہو وہ تمام لاشعور میں چلے جاتے ہیں ۔ تحت الشعور ۔۔۔   شعور اور لاشعور کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کونسے خیالات شعور میں داخل ہونے دینے ہیں اور کونسے  لاشعور میں واپس بھیج دینے ہیں ۔ 

لہٰذا یہ سمجھ میں آنا بہت آسان ہے کہ ناول کا مرکزی کردار اپنے جن خیالات ، احساسات ، خواہشات یا جذبات  کو کسی بھی وجہ سے اپنے لاشعور میں دفن کرچکا  وہ زندگی کے کسی حصے میں تخلیقی پیراہن اوڑھ کر  ذہن کے نفسیاتی نظام کے زیر اثر تحت الشعور تک پہنچنے میں کامیاب ہوگٸے ۔ کیونکہ اگر وہ لاشعور تک محدود رہتے تو ہرگز ہرگز ایک مربوط کہانی بن کر مصنف کی گرفت میں نہ آتے ۔ جب وہ تحت الشعور تک آٸے تو قابل قبول شکل اختیار کرچکے تھے سو شعور میں آٸے اور نہ صرف ایک مربوط بلکہ اتنی طاقتور کہانی بن کر صفحہءقرطاس پر نمودار ہوٸے کہ قاری کے دل و دماغ کو تھام کر ساتھ لے چلنے کی طاقت کے حامل بھی نظر آٸے ۔  انسان کو فطرت کی طرف سے ودیعت کیے جانے والی تخلیقی قابلیت اور تخلیقی نظام ہی ایک ایسا زریعیہ ہے جو لاشعور کے مشکل سے مشکل مواد کو حسن دے کر نہ صرف شعور میں لانے کی قدرت رکھتا ہے بلکہ منصہء شہود پر بھی لے آتا ہے ۔

منصور آفاق کا کمال فن یہ ہے کہ اس نے پیرالل سٹیٹ آف ماٸینڈ کو نہ صرف گرفت میں لیا بلکہ اسے سمجھا اور ایسے تخلیقی انداز میں پیش کردیا کہ ایک زندگی اور ایک کہانی  متوازی رہتے ہوٸے بھی خارج سے یوں جُڑ گٸی جیسے وہ متوازی نہ ہو بلکہ اسی ظاہری اور خارجی  زندگی کی ایکسٹینشن ہو ۔ اتنا غیر معمولی کام کوٸی بڑا اور عظیم تخلیقکار ہی سرانجام دے سکتا ہے ۔ 

اس ناول کا ایک اور منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کہانی کے دونوں حصوں میں ناول نگار اپنے نام سمیت مرکزی کردار کے طور پر موجود ہے ۔ پہلے حصے میں منصور آفاق کے نام سے اور دوسرے حصے میں آقا قافا  کے نام سے جسے الٹ پلٹ کرکے دیکھیں تو اس میں سے بھی آفاق برآمد  ہوتا ہے ۔ ایک بات تو طے ہے کہ کہانی کے کچھ واقعات ، مقامات یا کردار کہیں نہ کہیں ناول نگار کی زندگی میں حقیقی طور پر موجود رہے یا آٸے گٸے ہوں گے  لیکن اس ناول کی افسانوی حیثیت پھر بھی برقرار رہتی ہے   ورنہ ناول نگار اسے خودنوشت سوانح حیات بھی قرار دے سکتا تھا ۔ مجھے اس کہانی میں بہت سارا کانٹینٹ ناول نگار کی ان نا آسودہ تمناوں کا تخلیقی اظہار لگتا ہے جو ہم جیسے بہت سارے بلکہ تمام کے تمام انسانوں اظہار نہ پا سکنے والی  کہانیوں کی طرح دل کے نہاں خانوں اور اجڑے پجڑے نیم تاریک ڈبوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند پڑی رہتی ہیں ۔ 

میرے ذاتی نظرٸیے کے مطابق ان کہی جتنی بڑی ہوگی اگر بیاں ہو پاٸے تو ہمیشہ اتنا ہی بڑا لٹریچر ظہور پاتا ہے کیونکہ ان کہی کا تخلیق کے پیرہن  میں ڈھلنا دنیا کے ہر ادب کی اساس قرار دیا گیا ہے ۔ 

ناول کا پلاٹ روایتی اور کہانی ڈراماٸی ہے لیکن کہانی پن انتہاٸی مضبوط بھی ہے اور قابل ستاٸش بھی ۔ ٹکڑوں میں تفسیم ٹریکس اتنی مہارت کے ساتھ اپنی اپنی سمت سے آ کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں کہ ناول کی اکاٸی غیرمعمولی طور پر نمایاں ہوتی اور اپنا احساس دلاتی ہے ۔ ملٹی کلچرل اور ملٹی ریلیجٸیس  ممالک کی حکومتی پالیسی اپنی ریاستی ضرورت کے تحت ہمیشہ انسانی سطح پر پُر امن معاشرے کی تشکیل اور پھر تعمیل کی بنیادوں  پہ وضع کی جاتی ہے ۔ اور یہی اس ناول کا بنیادی موضوع بھی ہے ۔ جس کے ثبوت کے طور پر ناول سے ایک کوٹ ملاحظہ فرماٸیں ۔

” ایک اور شخص نے اٹھ کر سوال کیا ۔۔۔ کیا میں آپ سے آپ کی قومیت اور مذہب سے متعلق پوچھ سکتا ہوں ؟ 

آقا قافا بولے ۔۔۔ کیوں نہیں ، میرا وطن کاٸنات ہے ، میری قومیت آدمیت ہے ، میرا مذہب انسانیت ہے ، میری زبان محبت ہے ۔ میں ایک انسان ہوں صرف انسان اور ہر انسان کو آسودہ دیکھنا چاہتا ہوں “ ۔ 

 اگرچہ ناول میں ۔۔۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اس تضاد کو بیان کرنے سے گریز کیا گیا ہے کہ یہی ممالک جو اپنے اندر گلوبل انسانی نظرٸیے پر سماجی ڈھانچے اور سیاسی نظام کو استوار کیے ہوٸے ہیں دوسرے خصوصاً ترقی پذیر ممالک کے لیے ان کی پالیسیاں ڈیواٸیڈ اینڈ رول سے کبھی باہر نہیں آسکیں ۔۔۔ لیکن یہ المیہ بین السطور ناول میں جگہ جگہ  معصوم اور بے ضرر  بیانیے کی شکل میں  خود بخود جنم لیکر ایک سوالیہ نشان کی طرح سامنے آ کر کھڑا ہوجاتا ہے کہ آزادی ِ اظہار کا دعویٰ کرتے ان ممالک میں سیکنڈ یا تھرڈ لیول سٹیزن راٸیٹرز کو اپنا فن تخلیق کرنے کے لیے ان کی بناٸی گٸی مصنوعی اور منافقانہ پالیسیوں کی مکمل فکری پیروی کرنا پڑتی ہے ۔ 

جوگ ، تصوف ،  روحانیت اور مذاہب کے درمیان اشتراکی پیرا میٹرز کی نشاندیہی اور انسانی ہم آہنگی کی بنیادوں کی فراہمی اس ناول میں ایک نٸے فکری اشتراکی نظرٸیے کو جنم دیتی ہے جو  مختلف الانظریہ و ثقافت انسانوں کی طرف سے گلوبل ریاستوں کو بطور پر امن شہری دی جانے والی گارنٹی یا ضمانت قرار دی جاسکتی ہے ۔ 

یوں یہ ناول محض روحانی ، متصوفانہ یا جوگیانہ موضوعات و واقعات  کے گرد گھومنے 

 کے باوجود ایک گلوبل سیاسی ، سماجی اور شہری بنیاد بخشتا نظرآتا ہے جو اس وقت امریکہ ، برطانیہ ، آسٹریلیا اور جرمنی جیسے ملٹی کلچرل ممالک اور معاشروں کی اشد ضرورت بھی ہے اور ترجیح بھی یا بالفاظ دیگر

اپنے موضوع کے اعتبار سے منصور آفاق کا  ناول آقا قافا انسان کے باطن اور خارج کے درمیان ایک ایسے آفاقی پل کی تعمیر کا ایک ایسا فکری نظام اور نظریہ فراہم کرتا ہے جو مختلف مذاہب اور مختلف نظریہ ہاٸے حیات رکھنے والے انسانوں کو ایک سماج میں رہتے ہوٸے کسی کے لیے باعث آزار بننے کی بجاٸے خالص انسانی بنیادوں پر ایک دوسرے کو قبول کرنے اور مل جل کر پرامن شہریت کی تعمیر کے قابل بناتا ہے ۔ دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب میں کسی  بڑے آفاقی نظرٸیے کی تشکیل کرتا ادب پارہ ہی بڑے ادب کا ٹاٸیٹل سجانے کا حقدار ہوا کرتا ہے ۔ 

میرے خیال میں جتنا اہم یہ ناول اردو زبان و ادب کے لیے قرار دیا جاسکتا ہے اس سے کہیں زیادہ اس کی اہمیت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے ادب  کے لیے ثابت شدہ اور مصمم ہے ۔

No comments:

Post a Comment